Breaking News

کیا چین اور امریکہ کبھی دوست بھی تھے؟

کیا چین اور امریکہ کبھی دوست بھی تھے؟


چین امریکہ تعلقات: ’امریکہ ایسی بندوق بالکل نہیں بننا چاہتا جس میں کوئی گولی نہ ہو‘

China-America-Trade-War




چین اور امریکہ کے درمیان موجودہ کشیدگی کو دیکھتے ہوئے کہا جانے لگا ہے کہ ’اس وقت دونوں ملکوں کے تعلقات کا خراب ترین دور‘ چل رہا ہے۔ وہ سارے موضوعات جن پر اب تک دونوں ممالک بات کرتے آئے ہیں، اب ان پر اختلافات کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔

چین نے حال ہی میں ہانگ کانگ کے لیے قومی سکیورٹی کا ایک سخت قانون متعارف کرایا ہے جس کی وجہ سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے جبکہ کورونا وائرس کی عالمی وبا، ساؤتھ چائنا سی اور باہمی تجارت کے قواعد پر دونوں میں پہلے ہی سے اختلافات جاری ہیں۔

امریکہ کی طرف سے چین کے خلاف الفاظ کی جنگ جاری ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ چین کو ’آمرانہ‘، ’ضدی‘، ’تخلیقی حقوق کا چور‘ اور ’استحصال کرنے والا‘ کہہ چکی ہے اور امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے چین کو امریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔

حال ہی میں کرسٹوفر رے نے کہا کہ ’چین کسی بھی طرح دنیا کا اکیلا سپر پاور بننے کی کوشش کر رہا ہے۔‘ وہیں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے امریکہ اور چین کے مقابلے کو ’آزادی اور ظلم کی لڑائی‘ قرار دیا۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ فی الحال پوری دنیا میں اس بات پر فکر ہے کہ ’الفاظ کی یہ جنگ کہیں ان دو بڑی طاقتوں کو حقیقی جنگ کی طرف نہ دھکیل دے۔‘

لیکن سوال اٹھتا ہے کہ امریکہ جو چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو ’تاریخی‘ کہتا آیا ہے، اس کے رویے میں آئی تلخی کہ وجہ کیا ہے؟

China-President

دو سو سال سے زیادہ پرانے تعلقات

امریکی وزارت خارجہ کے آفس آف دی ہسٹورئین کے مطابق سنہ 1784 میں ’ایمپرس آف چائنا‘ نامی پہلا جہاز امریکہ سے چین کے صوبے گوانگزو پہنچا تھا۔ اسی کے ساتھ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی روابط کا آغاز ہوا، جن میں چائے پتی، چینی مٹی اور ریشم نمایاں تھے۔

سنہ 1810 میں برطانوی تاجروں نے انڈین افیون چین لانے کا کام شروع کیا تھا۔ ان کے منافع کو دیکھ کر امریکی تاجروں نے بھی یہی کام شروع کیا لیکن وہ افیوں انڈیا سے نہیں بلکہ فارس سے لاتے تھے۔

1830 میں پہلی بار کچھ امریکی پادری اپنے مذہب کو فروغ دینے کے ارادے سے چین پہنچے۔ انھوں نے چینی تاریخ، زبان اور ثقافت کا مطالعہ کیا اور امریکی تاریخ کو چینی زبان میں لکھا۔

اس کے پانچ سال کے اندر اندر ایک امریکی ڈاکٹر چین پہنچے اور انھوں نے وہاں ایک کلینک قائم کیا۔ سنہ 1847 میں ایک جہاز چینی مزدوروں (جنھیں کولی بھی کہا جاتا تھا) کو لے کر کیوبا پہنچا۔ وہاں انھیں گنے کے کھیتوں میں کام پر لگایا گیا۔ اس کے کچھ ہی عرصے بعد چینی مزدور امریکہ بھی پہنچنے لگے، جہاں انھیں مزدوری کرنے کی پوری آزادی دی گئی۔

لیکن ان میں کانوں میں کام کرنے اور ریل کی پٹریاں بچھانے جیسے چھوٹے کام کرنے کے ہی مواقع شامل تھے۔ اس کے باوجود اگلے بیس برسوں میں ایک لاکھ سے زیادہ چینی مزدور امریکہ پہنچ چکے تھے۔ امریکی سینسس بیورو کی 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں چالیس لاکھ سے زیادہ چینی نژاد لوگ رہتے ہیں۔

Mao_Zedong_1959

چین امریکہ تعلقات پر ماؤ زے تنگ کا اثر

امریکی وزارت خارجہ کے مطابق سنہ 1850 سے 1905 کے درمیان چین اور امریکہ کے تعلقات نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے۔ اس دوران دونوں ممالک میں کئی تجارتی معاہدے ہوئے اور ٹوٹے، دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے شہریوں پر پابندیاں لگائیں اور دونوں نے ایک دوسرے سے کھل کر اختلاف بھی کیا۔

سنہ 1911-12 میں چین میں سامراجیت کا زوال ہوا جس کے ساتھ ہی چین ایک جمہوریہ بن گیا۔

سنہ 1919 میں امریکی صدر ووڈرو ولسن کے کہنے پر چین نے پہلی جنگ عظیم میں اتحادیوں کا ساتھ دیا، اس امید پر کہ اسے جرمنی کے تجارتی علاقے میں اپنا اثر بڑھانے کا موقع ملے گا، جو اس وقت تک صرف جاپان کے پاس تھا۔

لیکن یہ امید ’ورسائے معاہدے‘ کی وجہ سے پوری نہیں ہو پائی کیونکہ جاپان، برطانیہ اور فرانس نے آپس میں ہی کچھ معاہدے کر لیے تھے جن کے بارے میں چین کو علم نہیں تھا۔

اس سے چین کے لوگون میں امریکہ کے لیے غصہ پیدا ہو گیا اور چار مئی 1919 کو طالب علموں کے گروہوں نے دارالحکومت بیجنگ کے تیانیمن سکوائر میں بہت بڑا مظاہرہ کیا، جو اس وقت کا ’سب سے بڑا شہری انقلاب‘ تھا اور اسی کے ساتھ چین میں معاشی اور سیاسی تبدیلی کا آغاز ہوا۔

سنہ 1921 میں بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے کچھ لوگوں نے شنگھائی میں چینی کمیونسٹ پارٹی قائم کی اور سنہ 1949 میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما ماؤ زے تنگ نے بیجنگ میں ’پیپلز ریپبلک آف چائنا‘ کی بنیاد رکھی۔

کمیونسٹ پارٹی کو کسانوں کی حمایت حاصل تھی اور چیانگ کائی شیک کی قیادت میں قوم پرست کامنتانگ پارٹی کو ہرا دیا تھا۔

اس سیاسی لڑائی میں امریکہ نے کامنتانگ پارٹی کی حمایت کی تھی، جس کی وجہ سے ماؤ زے تنگ کے اقتدار میں آنے کے بعد کئی دہائیوں تک چین امریکہ تعلقات محدود ہی رہے۔

South-Korea-America

کوریا کی جنگ اور چین کا جوہری تجربہ

25 جون سنہ 1950 کو سوویت یونین کی حمایت یافتہ شمالی کوریا کی فوج نے جنوبی کوریا پر حملہ کر دیا۔ اس جنگ میں جہاں ایک طرف اقوام متحدہ اور امریکہ نے جنوبی کوریا کا ساتھ دیا وہیں چین نے شمالی کوریا کی حمایت کی۔

بین الاقوامی امور کے ماہر اور انڈیا کے سابق سفارت کار راکیش سود کہتے ہیں: ’شروع شروع میں کمیونسٹ چین اور امریکہ کی تعلقات کافی منفی تھے۔ اسے دور میں کوریا کی جنگ بھی ہوئی جس میں کمیونسٹ نظریہ رکھنے والے چین اور شمالی کوریا ایک ساتھ تھے۔ اس جنگ کا کوئی نتیجہ نہیں نکل پایا بلکہ 1953 میں اقوام متحدہ، چین اور شمالی کوریا کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے کے تحت جنگ بندی ہوئی۔ اس جنگ میں تقریباً 40 ہزار امریکی فوجی مارے گئے جبکہ چینی فوجیوں کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ تھی، جس سے دونون کے درمیان تعلقات مزید خراب ہوئے۔‘

سنہ 1954 میں امریکہ اور چین ایک بار پھر تائیوان کے معاملے پر آمنے سامنے ہوئے اور امریکہ نے چین پر جوہری حملہ کرنے کی دھمکی دی، جس کے بعد چین کو سمجھوتا کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

تاہم چین نے اس دھمکی کو ایک چیلینج سمجھا اور سنہ 1964 میں اس نے اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا۔ اس پر بھی امریکہ اور چین کے درمیان اختلافات کھڑے ہوئے۔

تاہم ان دونوں ملکوں کے رشتوں میں ایک نیا موڑ تب آیا جب چین اور سوویت یونین کے درمیان ’چین کی مبینہ سخت گیر صنعتی پالیسیوں‘ کی وجہ سے کشیدگی پیدا ہونے لگی جس کے بعد ان دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر جھڑپیں شروع ہو گئیں۔

جلد ہی چین کے لیے سب سے بڑا خطرہ امریکہ نہیں بلکہ روس بن گیا۔ اس کے ساتھ ہی چین امریکہ تعلقات نارمل ہونے لگے۔

جب پہلی بار چین اور امریکہ کو محبت ہوئی

سنہ 1972 میں امریکہ کے صدر رچرڈ نکسن نے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی طرف قدم بڑھایا۔ وہ چین پہنچے اور وہاں آٹھ دن گزارے۔ اس دوران انھوں نے کمیونسٹ رہنما ماؤ زے تنگ کے ساتھ ملاقات کی اور ’شنگھائی کمیونیک‘ پر دستخط کیے، جسے چین اور امریکہ کے بہتر ہوتے تعلقات کی علامت کہا گیا۔

China-America-Relation
،تصویر کا کیپشن

امریکی صدر رچرڈ نکسن نے 1972 میں چین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا

راکیش سود کہتے ہیں کہ ’امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہینری کسینجر اور رچرڈ نکسن نے چین کو عالمی سطح پر طاقت کے توازن کو بدلنے کا ایک ذریعہ سمجھا اور یہ سوچا کہ اگر امریکہ کمیونسٹ بلاک میں کچھ اختلافات پیدا کر سکے اور چین کو سوویت یونین سے الگ کر سکے تو اچھا رہے گا۔ اور امریکہ نے بالکل یہی کیا۔‘

’اس وقت تک چین اور سوویت یونین میں بھی نظریاتی اختلافات سامنے آنے لگے تھے۔ ادھر ماؤ بھی سوچ رہے تھے کہ امریکہ کے ساتھ شروعات کی جائے۔ ایسے میں نکسن کی طرف سے پہل ہوتے دیکھ کر چین نے سوویت یونین سے ہٹ کر امریکہ کے ساتھ جانے میں دیر نہیں کی اور امریکہ سے اسے جو فائدہ مل سکتا تھا، چین نے اسی پر اپنی تمام توجہ مرکوز کی۔‘

چین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے امریکہ نے 1980 کی دہائی میں کچھ بڑے قدم اٹھائے۔ تب تک ماؤ زے تنگ کی موت کے بعد ڈینگ ژیاؤ پنگ چین کے رہنما بن چکے تھے۔

سود کہتے ہیں کہ ’ڈینگ ژیاؤ پنگ نے چین کی رکی ہوئی معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے کچھ اقتصادی اصلاحات متعارف کرائیں اور چین کو جدید دور میں لانے کی بات کی۔ جس کے تحت انھوں نے بین الاقوامی بازار کے لیے چین کے دروازے کھول دیے۔ اس وجہ سے سنہ 1985 آتے آتے کئی بڑی جاپانی اور امریکی کمپنیوں نے چین میں دلچسپی لینا شروع کی۔ ترقی کرتا ہوا چین امریکی کمپنیوں کے لیے بہت فائدہ مند تھا کیونکہ چین کے پاس بازار بہت بڑا تھا۔‘

یہ ماحول دیکھ کر امریکہ نے تائیوان کے معاملے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور چین کو یقین دلایا کہ وہ تائیوان کی طرف سے ثالثی کی کوشش نہیں کرے گا جبکہ سنہ 1954 میں تائیوان کے معاملے پر ہی امریکہ نے چین پر جوہری حملہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔

No comments