Breaking News

پاکستان تحریکِ انصاف کے دو سال: عمران خان کی حکومت کی کامیابیاں اور چیلنجز

پاکستان تحریکِ انصاف کے دو سال: عمران خان کی حکومت کی کامیابیاں اور چیلنجز



    ’وائرس سے بچ گئے تو مہنگائی مار دے گی، سکون تو بس قبر میں ہی ہے۔‘

    یہ بات اسلام آباد کے ایک بڑے ڈپارٹمنٹل سٹور پر آئے ایک شہری نے اُس وقت کیشیئر سے کہی جب اُن کے مہینے کے راشن کا بِل ان کی توقع سے کہیں زیادہ آیا۔

    ماہرین معیشت کہتے ہیں کہ عام آدمی کو ملکی قرضوں یا خسارے سے کوئی غرض نہیں وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ آٹے، چینی کی قیمت کیا ہے اور روزگار کے مواقع کتنے ہیں۔

    شاید اسی لیے حکومتی وزیر فواد چودھری نے کچھ عرصہ قبل سوال کیا تھا ’کیا اس کارکردگی کے ساتھ ہم (پاکستان تحریک انصاف) آئندہ الیکشن میں جا سکتے ہیں۔‘

    اپنی دو دہائیوں پر محیط سیاسی جدوجہد اور اس سے پہلے بطور کرکٹر اور ملک میں کینسر کا جدید ہسپتال بنانے جیسے فلاحی منصوبوں پر کام نے عمران خان کو عوام میں مقبول تو بنایا مگر اس کے باوجود عموماً ان کی جماعت کی سنہ 2018 کے عام انتخابات میں کامیابی کو فوج کے پلڑے میں ڈالا جاتا ہے اور حزب اختلاف کے رہنما اکثر پارلیمان میں بھی انھیں ’سیلیکٹڈ‘ کا خطاب دیتے نظر آتے ہیں۔

    اپوزیشن اور حکومتی اراکین میں الزامات کا یہ سلسلہ پاکستان میں کم ہی رُکتا ہے۔ عمران خان کے اصل چیلنجز تو اِن کے معیشت، احتساب، طرز حکمرانی اور سفارت کاری کے شعبے سے متعلق وہ وعدے اور اعلانات ہیں جو ان کی انتخابی مہم اور منشور کا حصہ تھے۔

    تحریک انصاف کی حکومت ان شعبوں میں کس حد تک کامیاب یا ناکام ہوئی یہ جاننے کے لیے ہم نے حکومتی امور پر نظر رکھنے والے چند ماہرین سے بات کی ہے۔

    Pakistan-Currency

    معیشت

    ماہرین معیشت کہتے ہیں کہ عام آدمی کو معیشت سے متعلق اعداد و شمار، ملکی قرضے یا خسارے سے کوئی غرض نہیں، وہ صرف معیشت کو اشیائے ضرورت کی قیمتوں اور روزگار کے دستیاب مواقعوں کے پس منظر میں دیکھتا ہے۔

    اگر یہی پیمانہ رکھا جائے تو ماہرین کے مطابق گذشتہ دورِ حکومت کے اختتام پر آٹے کی فی کلو قیمت 32 روپے تھی جو اب 52 روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے جبکہ اسی دورانیے میں چینی کی قیمت 55 روپے سے بڑھ کر 85 روپے ہو گئی ہے۔

    حکومت کے سالانہ پلان کی رپورٹ برائے 2020-21 کے مطابق ملک میں بیروزگار افراد کی تعداد 40 لاکھ سے بڑھ کر 60 لاکھ ہونے کی توقع ہے۔

    اسی بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے معاشی امور کے ماہر سہیل احمد کہتے ہیں کہ معیشت کے بڑے انڈیکیٹرز میں تو گراوٹ آئی ہے مگر آئندہ برس صورتحال کچھ بہتر ہو سکتی ہے۔

    وہ کہتے ہیں کہ ’دو سال میں معیشت کی حالت بہتر نہیں رہی اور جی ڈی پی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے۔‘

    انھوں نے کہا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں آبادی مسلسل بڑھ رہی ہو اور اس میں جی ڈی پی نہ بڑھے تو یہ بہت بڑا سیٹ بیک ہے، مگر ہمیں اس تناظر میں دیکھنا چاہیے کہ جب یہ حکومت میں آئے تھے تو یہاں فارن ایکسچینج کا بحران تھا اور ایکسٹرنل اکاؤنٹ پر دباؤ تھا۔

    ’حکومت نے اس سے نمٹنے میں کافی وقت لگایا، پوری معاشی ٹیم تبدیل کی گئی۔ آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ آیا تو معیشت میں کچھ بہتری آئی مگر اس کے ساتھ ہی معیشت کی یہ بحالی کورونا وائرس کے باعث متاثر ہونا شروع ہو گئی۔‘

    PTI-Government-Two-Year-Progress0

    وہ کہتے ہیں کہ یہ حوصلہ افزا ہے کہ 'ایکسٹرنل اکاؤنٹ میں اب کسی حد تک بہتری آئی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ کورونا وائرس پر پاکستان نے دیگر ممالک سے جلدی اور بہتر انداز میں قابو پا لیا ہے اور یہاں شرح سود میں کمی کی گئی ہے اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والا سال گذشتہ دو برسوں کی نسبت کچھ بہتر ہوگا۔‘

    خیال رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے حال ہی میں ختم ہونے والے مالی سال 20-2019 کے دوران مجموعی طور پر 13 ارب ڈالر مالیت کے بیرونی قرض حاصل کیے۔ جو ملکی تاریخ میں حاصل کردہ قرضوں کا دوسرا بڑا حجم ہے۔

    معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے لیے زرِمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے کے لیے قرضوں کا حصول ضروری تھا اور یہ کہ حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہے کہ وہ پہلے سے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی کے لیے نئے قرض حاصل کرے۔

    گزشتہ دو مالی سالوں کے دوران 29 ارب 20 کروڑ ڈالر مالیت کے بیرونی قرضے لیے گئے ہیں۔ جن میں سے 26 ارب 20 کروڑ ڈالر قرض وزیرِ اعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں حاصل کیا گیا۔

    اعداد و شمار کے مطابق حاصل کردہ قرضوں میں سے 19 ارب 20 کروڑ ڈالر کی رقم پہلے سے حاصل کردہ قرضوں کی واپسی کے لیے استعمال کی گئی۔

    اسی بارے میں بات کرتے ہوئے تجزیہ کار فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی کے پیشِ نظر حکومت کے لیے نئے قرضوں کا حصول ناگزیر تھا، لیکن معیشت سے متعلق حکومت نے اگر کوئی اچھا کام کیا ہے تو وہ بیرونی تجارتی خسارے کو کم کرنا تھا۔

    Farrukh-naseem

    اُن کے بقول ’تجارتی خسارہ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں 20 ارب ڈالر تھا جو تحریک انصاف کی حکومت کے پہلے سال میں 10 ارب ڈالر تک لایا گیا اور اب یہ خسارہ تقریباً تین ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ جو ایک بڑی کامیابی ہے۔‘

    فرخ سلیم کہتے ہیں کہ عام آدمی حکومتی قرضوں یا خسارے کو نہیں دیکھتا بلکہ عام آدمی کے لیے یہ اہمیت رکھتی ہے کہ اس کی اشیائے ضرورت اس کی دسترس میں ہیں یا نہیں، اور ماہرین کے مطابق اس سطح پر عوام حکومت سے نالاں نظر آتی ہے۔

    بی بی سی نے عام آدمی کے حالات سے متعلق یہی سوال جب وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز سے کیا تو انھوں نے کہا کہ ’عام آدمی کا فائدہ یہی ہے کہ بنیادی ضرورت کی اشیا یعنی آٹا، چینی وغیرہ مارکیٹ میں موجود ہوں اور ان کی ذخیرہ اندوزی نہ ہو اور یہی ہماری کوشش ہے کہ ہم مارکیٹوں میں ان اشیا کی دستیابی میں خلل نہ آنے دیں تاکہ مافیا ذخیرہ اندوزی نہ کر سکیں۔‘

    شبلی فراز نے کہا کہ ’وقت کے ساتھ ہماری کارکردگی بہتر ہو رہی ہے۔ لیکن چھڑی گھمانے سے کچھ نہیں بدلتا، گزشتہ حکومتوں نے نہایت منظم انداز میں اداروں کو تباہ کیا ہے، اب ہم ریفارمز لا رہے ہیں، اور جلد حالات میں مزید بہتری آئے گی۔

    Shibli_Fraz_updates

     کہتے ہیں کہ معاشی استحکام کے لیے بڑے پیمانے پر کوشش کی گئی ہے۔ 'فسکل ڈیفیسٹ کو کم کیا گیا ہے، کورونا وائرس کے باوجود جولائی میں برآمدات میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ اگر ہم وہ صورتحال دیکھیں جس میں ملک ہمیں ملا تھا تو ہم نے بہت بہتر کام کیا ہے۔ جب معیشت کا جائزہ لیا جاتا ہے تو یہ بھی دیکھیں کہ ٹیکس کی مد میں اکٹھے کیے گئے پیسے کا پچاس فیصد تو قرضے اتارنے کے لیے چلا جاتا ہے۔‘

    تجزیہ نگار حسین عسکری نے بھی بی بی سی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹریڈ ڈیفیسٹ میں کمی لانا حکومت کی کامیابی ہے کیونکہ حکومت نے درآمدات کو کنٹرول کیا ہے۔ ’اس کے علاوہ پاکستان کا بین الاقوامی قرضوں میں ڈیفالٹ کا خطرہ ٹالا گیا ہے اگرچہ ایسا باہر سے مزید قرضے لے کر کیا گیا ہے اور اس سے قرضوں میں اضافہ بھی ہوا۔ جبکہ کورونا کے معاملے پر بھی حکومت نے اطمینان بخش کارکردگی دکھائی ہے۔ مگر عام آدمی سے جڑے معاملات جیسا کہ قیمتوں پر قابو پانا، میں حکومت ناکام نظر آتی ہے۔‘

    کیا سفارتکاری کامیاب رہی؟

    ان دو برسوں میں پاکستان کو سفارتی سطح پر بھی بڑے چیلنجز کا سامنا رہا۔

    عمران خان نے حکومت میں آتے ہی انڈیا کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا مگر پلوامہ اور پھر بالاکوٹ حملے اور لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کے درمیان شدید تناؤ نے تعلقات کو بدترین سطح پر پہنچا دیا۔ رہی سہی امید اس وقت دم توڑ گئی جب انڈیا نے یکطرفہ طور پر اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔

    پاکستان کے وزیر اعظم نے عالمی سطح پر اس معاملے کو اٹھایا اور کئی ماہرین اسے پی ٹی آئی کی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ہی کشمیر کے معاملے پر او آئی سی کا اجلاس طلب کروانے میں ناکامی اور بیشتر مسلم ممالک کی جانب سے اس معاملے پر کھل کر پاکستان اور کشمیر کے حق میں بیانات نہ آنا ایک سفارتی ناکامی کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔

    OIC-Meeting

    حال ہی میں سعودی عرب سے متعلق وزیر خارجہ کے بیان کو جہاں کئی حلقوں کی جانب سے سفارتی آداب کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے، وہیں متعدد ماہرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اب خاص لائن سے ہٹ کر اپنے مفادات کی جانب بتدریج بڑھ رہی ہے۔

    بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار رؤف حسن کہتے ہیں کہ ’پہلے کہا جاتا تھا کہ پاکستان نے خود کو مشرق وسطیٰ کی گود میں رکھا ہے اور اس بارے میں ہر حال میں ان ممالک خاص طور پر سعودی عرب کے حمایت ملکی مفادات سے الگ ہو کر کی جاتی ہے۔ مگر چند برس پہلے خصوصاً یمن کے معاملے کے بعد اس میں کسی حد تک تبدیلی آنا شروع ہوئی ہے۔ یہ سوال کیا جاتا تھا کہ پاکستان متوازن خارجہ پالیسی کیوں اختیار نہیں کر پاتا۔ اب ہم اسی جانب بڑھ رہے ہیں۔ مگر اس میں خاصا وقت لگے گا۔‘

    وہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے ان دو برسوں میں یہ واضح تاثر دیا ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے اور ملائیشیا اور ترکی جیسے ممالک جو کھل کر کشمیر سمیت تمام امور پر پاکستان کی حمایت کرتے ہیں، پاکستان ان کو ماضی کے دیرینہ تعلقات سے زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔

    ماہرین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عمران خان امریکہ کے ساتھ بھی برابری کی سطح پر دو طرفہ تعلقات قائم کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوئے ہیں جو امریکی صدر ٹرمپ کے دور حکومت میں عمران خان کے لیے بڑے چیلنجز میں سے ایک تھا۔

    NaB


    پی ٹی آئی کے دو سال: سیاست اور احتساب ؟

    سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گذشتہ دو برسوں میں اپوزیشن کے ساتھ تعلقات تو خراب تھے ہی مگر پی ٹی آئی کے اندر بھی تقسیم در تقسیم کی سیاست کافی کھل کر سامنے آئی۔ ایک بڑی کابینہ ہونے کے باوجود ان دو برسوں میں ’کنفیوژن‘ اور ’افراتفری‘ کا تاثر ملتا رہا اور بعض حکومتی وزرا جیسا کہ فواد چودھری نے تو ببانگ دہل پارٹی کے اندرونی اختلاف کی باتیں کیں۔

    حکومت میں آنے کے بعد عمران خان کا سب سے بڑا نعرہ مالی بے ضابطگیوں میں ملوث افراد کے خلاف اعلان جنگ تھا۔ انھوں نے ملک کے لوٹی ہوئی دولت قومی خزانے میں واپس لانے، گڈ گوورننس اور مضبوط معیشت قائم کرنے جیسے اعلانات کیے، مگر سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حکومت کا ہدف صرف ’مخالفین‘ ہی رہے ہیں۔

    لیکن ان کے اس ارادے کو ایک بہت بڑا دھچکا اس وقت لگا جب ان کی اپنی ہی ٹیم میں شامل ان کے قریبی ساتھیوں کے نام انکوائری کے بعد منظر عام پر آئے۔

    اسی بارے میں بی بی سی نے سینیئر صحافی فہد حسین سے بات کی۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کی تمام تر سیاسی زندگی ’احتساب‘ کے گرد گھومتی ہے۔

    ’اس میں کوئی شک نہیں کہ دو سال سے احتساب کا عمل جاری ہے مگر اس پر اب وہی سوالیہ نشان ہیں جو ماضی میں مختلف حکومتوں کے ادوار میں اٹھائے گئے۔ جب احتساب سے انتقام کی بو آنے لگے تو اس کے شفافیت پر حرف آجاتا ہے۔ ان دو سالوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ احتساب کا نزلہ اب بھی مخالفین پر گرتا ہے، اور وہی الزامات جب پی ٹی آئی کے اپنے رہنماؤں یا حکومتی حلیفوں پر لگتے ہیں تو ان سے نرمی برتی جاتی ہے۔

    فہد حسین کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے آئندہ تین برسوں میں بھی انھیں بہتری کی امید نہیں ہے جس کی وجہ ان کے خیال میں نیب قوانین میں اصلاحات کا نہ ہونا ہے۔ اور اس کا ذمہ دار وہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’ورکنگ ریلیشن شپ‘ کے فقدان کو سمجھتے ہیں۔

    ’مافیاز کا لفظ استعمال کرنا بہت آسان ہے اور سیاسی اکھاڑے میں تو الزامات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ مگر جب آپ احتساب کے لیے سنجیدہ ہوں تو قانون بالاتر ہے اور آپ کو الزام ثابت کرنا پڑتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ جمہوریت کی ناکامی ہے کہ ان دو سالوں میں احتساب کے نظام کی بہتری کے لیے حکومت اور حزب مخالف اپنی اپنی پوزیشن بتا کر مشاورت کی بجائے الزام تراشی اور ایک دوسرے کو مافیا کہہ کر جان چھڑاتے رہے ہیں۔

    Army_Govt

    حکومت اور فوج کے ’بہتر تعلقات‘

    دوسری جانب عمران خان اور فوج کے درمیان تعلقات کو بھی کچھ حلقے تنقید اور کچھ بہتر حکمت عملی قرار دیتے رہے ہیں۔

    ان کی حکومت پر الزام لگتا رہا کہ 'اصل حکومت ملک کے طاقتور فوجی حلقے چلا رہے ہیں' جبکہ اس کے حق میں بولنے والے کہتے ہیں کہ 'یہ خوش آئند ہے کہ فوج اور حکومت ایک ہی صفحے پر ہیں'۔

    بی بی سی سے بات کرتی ہوئے تجزیہ کار حسین عسکری کہتے ہیں ’فوج کے ساتھ تعلقات میں اتار چڑھاؤ تو چلتا رہتا ہے، ابھی فوج کے ساتھ تعلقات تو بہتر نظر آتے ہیں۔ مگر کئی خدشات جو حکومت کی خراب کاکردگی کے متعلق عام آدمی کے ذہن میں ہیں وہ فوج میں بھی موجود ہیں۔ مگر یہ واضح ہے کہ اس وقت ان کے پاس کوئی اور چوائس موجود نہیں کہ حکومت تبدیل ہوتی نظر آئے۔ دوسری جانب بدقسمتی سے موجودہ حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ اپنے تعلقات کو اس قدر خراب کر دیا ہے کہ اس کا بھی نقصان حکومت کو ہوتا ہے۔‘

    آئندہ تین برس کیسے ہوں گے؟

    پاکستان کے ماضی کے سیاسی منظر نامے کو دیکھتے ہوئے عام طور پر تین یا چار ماہ کے بارے میں ہی بات کی جاتی ہے۔

    تجزیہ کار کہتے ہیں کہ حکومت کے دو سال گزر جائیں تو کم از کم ایک بیانیہ اپنی موت آپ مر جاتا ہے، یعنی ’ہم تو نئی حکومت ہیں‘ یا یہ کہ ’پچھلی حکومت کا بویا کاٹ رہے ہیں‘، کیونکہ دو سال کی مدت کسی بھی حکومت کے لیے ایک بڑا عرصہ سمجھی جاتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر حکومت کی جانب سے کورونا وائرس قابو میں ہونے کے ’دعوے سچ ہیں تو اب تک یہی ایک بڑی کامیابی نظر آتی ہے جس کا کریڈٹ لیتے حکومت آئندہ تین سال کاٹ سکتی ہے۔‘

    Sabzi_Market

    تاہم کئی ناکامیوں کے درمیان عالمی وبا کورونا سے نمٹنے کی حکمت عملی کو خود حکومت اور ماہرین بھی دیگر کئی ممالک کی نسبت بہتر ردعمل قرار دیتے ہیں۔

    وزیر اطلاعات شبلی فراز کہتے ہیں کہ ’کورونا وائرس کے معاملے میں حکومت کی یہ اتنی بڑی کامیابی ہے کہ اس نے دیگر کئی کامیابیوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ڈگمگاتی معیشت اور انتہائی خراب نظام صحت کے باوجود پاکستان کورونا وائرس پر قابو پانے میں کامیاب ہوا ہے اور وزیر اعظم عمران خان کی سمارٹ لاک ڈاون کی حکمت عملی کو دنیا بھر میں سراہا گیا ہے۔‘

    حسین عسکری کہتے ہیں کہ ’کورونا وائرس کے آغاز میں پاکستان بھی اسی شش و پنج میں مبتلا رہا جس میں دنیا کے دیگر ممالک تھے مگر وقت کے ساتھ حکومت بہتر پالیسیوں کے ساتھ آئی اور بہت جلد اس وائرس کو پھیلنے سے روکا، یہ یقینی طور پر کامیابی ہے۔ آئندہ تین سال میں بہت بڑی تبدیلی تو شاید نہیں آئیں گی مگر حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحت کے نظام کی بہتری کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے۔‘

    No comments