بیروت دھماکہ: حکومت مخالف مظاہرے، مشتعل افراد وزارت خارجہ کی عمارت میں داخل
بیروت میں سینکڑوں مشتعل مظاہرین ملک میں ہونے والے بڑے دھماکے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے وزارت خارجہ کی عمارت میں داخل ہو گئے ہیں اور متعدد مظاہرین نے عمارت میں توڑ پھوڑ بھی کی ہے۔
سنیچر کو ہزاروں لبنانی شہریوں نے منگل کو ہونے والے دھماکے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے سیاسی رہنماؤں کی ناکامی پر غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ منگل کو بیروت کی بندرگاہ پر امونیم نائٹریٹ کے ایک ذخیرہ میں آتشزدگی کے بعد بڑا دھماکہ ہوا تھا جس میں کم از کم 158 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔ جبکہ دور تک عمارتوں اور گاڑیوں کو نقصان پہنچا تھا۔
مظاہرین حکومت کی جانب سے شہر کی تباہی کا سبب بننے والے امونیم نائٹریٹ کو مناسب طریقہ سے محفوظ کرنے اور تلف کرنے پر ناکامی کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔
پولیس اور چند مظاہرین میں جھڑپوں کی اطلاعات بھی ہیں اور پولیس نے مشتعل مظاہرین پر آنسو گیس کے شیل فائر کیے ہیں جبکہ مظاہرین پولیس پر پتھراؤ کر رہے ہیں۔
کچھ مظاہرین نے ملک کے سیاسی رہنماؤں کے بارے میں اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کرتے شہید سکوائر پر فرضی پھانسی کے پھندے بھی بنائے۔
اس مارچ کا مقصد ملک کے سیاسی رہنماؤں کے خلاف غصے کے اظہار کے ساتھ ساتھ دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کو یاد کرنا بھی ہے۔
منگل کے روز بندرگاہ پر ہونے والے دھماکے نے شہر کے متعدد حصوں کو تباہ کر دیا تھا۔ متعدد لوگوں کے خیال میں لبنان کے بدعنوان اور نہ اہل سیاست دانوں پر عوام پہلے سے ناراض ہیں۔ یہ دھماکہ بندرگاہ پر ایک گودام میں موجود امونیم نائٹریٹ کے ایک بہت بڑے ذخیرے کی وجہ سے ہوا تھا جو ایک جہاز سے پکڑا گیا تھا اور اس ذخیرے کو کبھی وہاں سے ہٹایا نہیں گیا۔
لبنان کی حکومت نے اس ضمن میں قصور واروں کو سزا دینے کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن لبنان میں عوام میں بڑے پیمانے پرعدم اعتماد پایا جاتا ہے جہاں معاشی بحران اور کرنسی کی قدر میں شدید کمی کے بعد گذشتہ اکتوبر میں بھی حکومت مخالف احتجاجی تحریک شروع ہوئی تھی۔
دھماکے سے ہونے والی تباہی کا جائزہ لینے کے لیے جب دو وزرا موقع پر پہنچے تو لوگوں نے انھیں وہاں سے بھگا دیا۔ اس دھماکے میں تقریباً چھ ہزارافراد زخمی ہوئے ہیں اور تازہ اعدادو شمار کے مطابق 30 تیس ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
مظاہروں میں شامل 28 سالہ انسانی حقوق کے کارکن فارس حلابی نے خبر رساں ادارے ای ایف پی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ’تین روز تک ملبہ ہٹانے اور اپنے زخموں پر مرہم لگانے کے بعد اب ہمارا غصہ پھٹنے کو ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ قصور واروں کو سزا دی جائے۔ ‘
لبنان کے صدر مشعیل عون نے دھماکے کی بین الاقوامی تحقیقات کے مطالبات کو مسترد کر دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مقامی حکام اس بات کا جائزہ لیں گے کہ کیا یہ دھماکہ کسی طرح کی بیرونی مداخلت کے باعث ہوا ہے۔
دریں اثنا اتوار کے دن عالمی رہنما ورچوئل ڈونر کانفرنس میں شرکت کرنے والے ہیں جس کا اہتمام فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس کانفرنس میں شرکت کرنے والے ہیں۔
بیروت کے دھماکے کے بعد اس ہفتے فرانسیسی صدر نے شہر کا دورہ کیا تھا جہاں مشتعل ہجوم نے اس معاملے میں بیرونی مداخلت کا مطالبہ کیا تھا۔ سابقہ نو آبادیاتی طاقت فرانس کے لبنان کے ساتھ قریبی معاشی تعلقات ہیں۔
جمعہ کو اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے لبنان میں خوراک کی ممکنہ قلت اور کوویڈ 19 کے باعث ممکنہ انسانیت سوز بحران کے بارے میں متنبہ کیا ہے۔
بہت سے ممالک پہلے ہی لبنان کو امداد بھیج چکے ہیں۔ امریکہ نے جمعہ کو فوری طور پر 15 ملین ڈالر مالیت کی خوراک اور ادویات لبنان بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ جبکہ برطانیہ نے رائل نیوی کے جہاز کے ذریعے پانچ ملین پاؤنڈ کا امدادی سامان لبنان روانہ کیا ہے۔
No comments