Breaking News

عوامی نیشنل پارٹی: کیا خیبرپختونخوا کی قوم پرست جماعت ایک بار پھر متحرک ہو رہی ہے؟


اے این پی
،تصویر کا کیپشن

خیبر پختونخوا میں اب چند ماہ سے اے این پی میں نمایاں تبدیلیاں نظر آنا شروع ہوئی ہیں اور تنظیمی ڈھانچے کے علاوہ سوشل میڈیا ٹیم کو بھی منظم کیا گیا ہے

پشاور کی فضاؤں میں کبھی بھی ایک رنگ حاوی نہیں رہا بلکہ یہاں مختلف رنگوں کی بہار رہی ہے۔ یہاں رنگوں سے مراد سیاسی جماعتوں کے پرچموں کے رنگ ہیں۔

پشاور میں ایک زمانے میں ہر طرف سرخ رنگ نظر آتا تھا۔ سرخ رنگ کے پرچم اور سرخ رنگ کی لالٹین لیکن پھر اس کے ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں کے رنگ بھی شامل ہوئے لیکن جب سے دہشتگردی کے خلاف جنگ شروع ہوئی اس کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کا سرخ رنگ پشاور کی فضاؤں سے غائب ہو گیا۔

جماعت کے قائدین اور کارکنوں پر اتنے حملے ہوئے کہ عام لوگ خوف کی وجہ سے اس جماعت کے پرچم سے دور ہوتے گئے اور لوگوں نے اپنے گھروں سے سرخ پرچم اتار دیے۔

پاکستان تحریک انصاف کے پرچم کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ یہ دو مسلسل ادوار سے یہاں لہرا رہا ہے لیکن اب ایک مرتبہ پھر سرخ رنگ کے پرچم لہرانے کی کوششیں شروع ہو گئی ہیں۔

تو کیا عوامی نیشنل پارٹی پھر منظم ہونے جا رہی ہے یا اب شدت پسندی کے اثرات کم ہونے کی وجہ سے جماعت کو پھر سے اپنی سیاسی جدوجہد کے لیے موقع فراہم ہو رہا ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران شدت پسندوں کے حملوں سے متاثرہ سیاسی قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے گذشتہ ادوار میں اتار چڑھاؤ دیکھے اور جماعت کو قائدین کی پالیسیوں اور دیگر عوامل کی وجہ سے نقصانات بھی اٹھانے پڑے تھے۔

لیکن اب کچھ عرصے سے جماعت کی سرگرمیاں ایک مرتبہ پھر ذرائع ابلاغ میں شروع ہوئی ہیں اور شاید اب پہلی مرتبہ بھرپور انداز میں جماعت نے سوشل میڈیا کا سہارا بھی لے لیا ہے۔

بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عوامی نینشل پارٹی نے اب روایتی سیاسی طریقوں سے ہٹ کر نئے سیاسی انداز اپنانے شروع کر دیے ہیں جن میں ایک سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی ظاہر کرتے رہنا ہے۔

جماعت کی نئی صوبائی قیادت نے تنظیمی سطح پر تبدیلیاں کی ہیں اوراب دور جدید کے تقاضوں کے مطابق منظم ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے لیے نئی قیادت نوجوانوں پر زیادہ انحصار کرنے جا رہی ہے۔

اے این پی
،تصویر کا کیپشن

عوامی نیشنل پارٹی کا ایک متحرک خواتین ونگ بھی ہے اور مقتول رہنما ہارون بلور کی اہلیہ ثمر بلور بھی انتخابات میں حصہ لے چکی ہیں



سیاسی مبصرین نے یہ تجزیے بھی کیے تھے کہ اگر جماعت کی طرف توجہ نہ دی گئی تو شاید جماعت آئندہ انتخابات میں اپنی موجودگی بھی ثابت کرنے میں ناکام رہے۔

پشتون قوم پرست جماعت سنہ 2008 کے انتخابات میں خیبر پختونخوا میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت رہی لیکن اس کے بعد سنہ 2013 اور 2018 کے انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کی مقبولیت میں بتدریج کمی واقع ہوئی۔

خیبر پختونخوا میں اب چند ماہ سے جماعت میں نمایاں تبدیلیاں نظر آنی شروع ہوئی ہیں اور تنظیمی ڈھانچے کے علاوہ سوشل میڈیا ٹیم کو منظم کیا گیا ہے۔



کیا شدت پسندی کا خوف ختم ہو گیا ہے؟

عوامی نیشنل پارٹی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑے نقصانات اٹھائے جن میں اہم قائدین کو نشانہ بنایا گیا۔ ان میں بشیر احمد بلور، ان کے صاحبزادے ہارون بلور اور میاں افتخار حسین کے بیٹے کے علاوہ جماعت کے اراکین صوبائی اسمبلی اور بڑی تعداد میں کارکنوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔

ہارون بلور
،تصویر کا کیپشن

ہارون بلور سنہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل پشاور میں اے این پی کی ایک کارنر میٹنگ کے دوران خود کش حملے میں ہلاک ہو گئے تھے

عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کو سنہ 2013 اور 2018 کے انتخابات کے دوران دھمکی آمیز خطوط بھی بھیجے گئے تھے اور انھیں انتخابی مہم سے منع کیا گیا تھا۔

کیا اب یہ دھمکیاں اور خوف ختم ہو چکا ہے یا اس میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے؟ اس بارے میں صوبائی صدر ایمل ولی خان سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اے این پی شدت پسندوں کا سیدھا نشانہ رہی ہے اور وزیرستان سے باقاعدہ طور پر اعلان کیا گیا اور ان کے راستے روکے گئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ان کی جماعت کے کوئی ایک ہزار کے قریب قائدین اور کارکنوں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔

انھوں نے یہ کہا کہ انھیں اس بات پر یقین نہیں کہ اب امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی ہے کیونکہ ان کی جماعت کے ضلعی صدر کو کچھ عرصہ پہلے پشاور میں قتل کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ انھوں نے کہا کہ انھیں خود پولیس حکام نے خطوط بھیجے ہیں کہ وہ خیال رکھیں کیونکہ انھیں خطرہ ہے۔

ایمل ولی نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ حالات میں قدرے بہتری آئی ہو لیکن اس کے لیے اس کا مستقل جائزہ لیتے رہنا ہوگا اور یہ حالات مستقل بنیادوں پر اگر بہتر ہوں تو وہ کہہ سکیں گے کہ اب حالات ملک میں بہتر ہو گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ حالات ایسے رہیں گے یہ چیزیں تو چلتی رہیں گی ان سے وہ خوف زدہ کبھی نہیں ہوں گے، ان کی جماعت کا نظریہ اور ان کی جماعت کی پالیس وہی رہے گی اور وہ لوگوں کی خدمت کرتے رہیں گے۔

سینیئر سیاسی تجزیہ کار عقیل یوسفزئی کا کہنا ہے کہ سنہ 2007 میں جب کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد رکھی گئی تھی تو اس وقت عوامی نیشنل پارٹی کو ایک دشمن جماعت سمجھا گیا اور جماعت کی پالیسیوں کی مخالفت کی گئی۔ ان پر حملے کیے گئے لیکن اس کے باوجود اے این پی نے اپنا وجود قائم رکھا۔

No comments